Thursday, June 9, 2011

سرسید کشمیر میرواعظ مولانا علامہ غلام رسول شاہ صاحب

سرسید کشمیر میرواعظ مولانا علامہ غلام رسول شاہ صاحب
بانی انجمن نصرۃ الاسلام
ایم ایس رحمن شمس
اسے مشیت خداوندی کہا جائے یا محض بخت و اتفاق کہ برصغیر ہند کے مغربی علاقوں سندھ، ملتان، گجرات اور جنوبی کناروں کیرلا وغیرہ میں دین اسلام پہلی صدی ہجری میں پھیلنا شروع ہوگیا تھا اور تیسری اور چوتھی صدی ہجری تک بجزخطہ کشمیر کے برصغیر کا کوئی علاقہ ایسا نہیں تھا جس میں اسلام کے نام لیوا مسلمان نہ پائے جاتے ہوں لیکن بدقسمی سے جنت بے نظیر کشمیر دین اسلام کے نور سے محروم تھی۔
آج سے سات سو سال پہلے یعنی آٹھوی صدی ہجری کی ابتدا تک درالظلمات تھی۔ دین اسلام کی عظیم تعلیمات اور ہدایات سے لوگ یکسر نا آشنا تھے لیکن آٹھویں صدی ہجری میں اللہ تبارک و تعالیٰ کے فضل و کرم سے نور اسلام کی ضیا پاشیوں اورروشن کرنوں نے اس ظلمت کدہ کو بقعہ نور میں بدل دیا۔
آج سے چھ سو سال قبل حضرت امیر کبیر میر سید علی ہمدانی کی کشمیر میں آمدو رفت شروع ہوئی اور آپ نے دین اسلام کے شجرہ طیبہ کی یہاں باقاعدہ آبیاری کی اور اسلام کی دعوت توحید قرآن و سنت کی اشاعت کے لئے آپ نے ختلان (ایران) سے آکر کشمیر کے یکے بعد دیگر تین دورے کئے اور اس پورے خطہ کو چمنستان اسلام میں تبدیل کر ڈالا۔
آپ اپنے ہمراہ کشمیر میں دین اسلام کی آبیاری کیلئے علماء، اور سادات کی ایک بڑی جماعت ساتھ لائے۔ انہی علمائے سادات میں میرواعظین کشمیر کے آبا واجداد بھی شامل تھے جنہوں نے جموں وکشمیر میں اشاعت اسلام ،،حفاظت اسلام اور دعوت اسلام کا فریضہ باقاعدگی کے ساتھ انجام دینا شروع کیا اور الحمد للہ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے ۔
بدقسمتی سے بارہویں، تیرہویں اور چودھویں صدی ہجری کشمیر میں اسلام اور مسلمانوں کیلئے مصیبتوں اور آزمائشوں کا زمانہ رہا ہے جبکہ وقت کے جابر حکمرانوں نے مسلمانوں کی زندگی اجیرن بنا ڈالی تھی اور دعوت دین اور اشاعت دین کے حوالے سے رکاوٹیں کھڑی کی گئی تھیں لیکن میراواعظین کشمیر نے زبردست مشکلات اور مصائب کا سامنا کرکے اسلام کے چراغ کو کشمیر میں روشن رکھا۔
چنانچہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ظلم و بربریت اور غلامی کے اثرات کے سبب اہالیان کشمیر شرک و بدعت اور توہم پرستی میں مبتلا ہونے لگے لیکن میرواعظین کشمیر اسکے خلاف برابررجہاد کرتے رہے اور دین اسلام کی اصل تعلیمات لوگوں تک پہنچانے کیلئے ہر ممکن کوشش کرتے رہے۔ اگرچہ انہوں نے دعوت و تبلیغ کا مرکز جامع مسجد سرینگر کو بنایا لیکن وہ کشمیر کے چپے چپے میں جاکر لوگوں کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کراتے رہے ۔
وقت کے حکمرانوں کے ہاتھوں ظلم و جبر اور استحصال کے سبب عام لوگوں کو اپنے جائز اور بنیادی حقوق سے بے خبر اور محروم ہوتے رہے لیکن اس وقت کے میرواعظ اور مرد آہن مولانا غلام رسول شاہ نے اس بات کو شدت سے محسوس کرکے اسکی تہہ تک پہنچ کر ملت کشمیر کو جہالت، غربت اور ظلمت سے نکالنے کیلئے اپنے رفقاء کے ہمراہ شہر سرینگر میں ۱۸۹۹ء میں انجمن نصرۃ الاسلام کی داغ بیل ڈالی۔ اس وقت کشمیر میں عام جہالت کا یہ عالم تھا اگر کسی مسلمان شہری کے نام کوئی خط آتا اسے پڑھوانے کیلئے دور دراز کئی میل کا سفر کرکے کسی پڑھے لکھے پنڈت کے پاس جانا پڑتا۔ نصرۃ الاسلام کے تحت چلنے والے مدارس میں دینی تعلیم کے ساتھ دنیوی تعلیم لازم قرار دی گئی اور جسکے نتیجے میں کشمیر کو ایسے لائق اور قابل فرزند ملے جو آگے چل کر مشاہیر کشمیر ثابت ہوئے۔
الحمد للہ! انجمن آج بھی اپنے تعلیمی مشن پر گامزن ہے۔انجمن کے قیام کے ساتھ ہی لوگ جوں جوں علم کے نور سے منور ہوتے گئے ان میں اپنے حقوق کے حصول کا شعور پیدا ہونے لگا چنانچہ مورخین اور مبصرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جموں وکشمیر میں عوام کی سیاسی اور سماجی بیداری
اس وقت شروع ہوئی جب انجمن کی بنیاد پڑی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پہلی دفعہ کشمیر کی تاریخ میں مسلمانان جموں وکشمیر کی طرف سے انکے بنیادی مطالبات پر مشتمل اس وقت کے میرواعظ مولانا احمد اللہ شاہ نے وائس رائے ہند کو اپنی دستخط سے میمورنڈم پیش کیا۔ جس کے نتیجے میں آپکو زبردست تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔
حقیقت میں عام کشمیریوں کیلئے دو شخصیتیں عظیم محسن کی حیثیت رکھتی ہیں ان میں سرفہرست ، داعی اسلام حضرت امیر کبیر میر سید علی ہمدانیؒ ہیں جنہوں نے اپنی بلند، روحانی اور اخلاقی قوت سے وادی کشمیر میں اسلام کا نور پھیلایا اور آپ ؒ کے بعد سرسید کشمیر میرواعظ علامہ غلام رسول شاہ بانی انجمن نصرۃ الاسلام ہیں جنہوں نے اس اولین تعلیمی ادارہ کی داغ بیل ڈال کر اہل کشمیر میں علم کا نور پھیلایا اور عوام میں تعلیمی بیداری کی ایک بھر پور تحریک شروع کی۔ جس نے دیکھئے پورے کشمیر میں ایک مثبت عملی انقلاب برپا کردیا۔
صدیاں گزر جانے کے بعد بھی ان دو عظیم اور بلند پایہ علمی اور روحانی شخصیتوں اور ان کے بے لوث اور ہمہ جہت خدمات کو ہرگز فراموش نہیں کیا جاسکے گا۔
میرواعظ علامہ رسول شاہ ؒ بانی انجمن نصرۃ الاسلام نہ صرف علامہ زمانہ ، ماہر علوم عقلیہ و نقلیہ بلکہ ایک تاریخ ساز اور ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے ۔ آپ نے جہاں کشمیر کی پسماندہ اکثریت کو بے علمی کے چنگل سے نجات دلائی وہاں اسلامی، اصلاحی ، تبلیغی ، سماجی ، معاشرتی اور ثقافتی میدان میں نمایاں خدمات انجام دیں اور خاص طور توہمات ، شرکیات اور بدعات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں جو کرنامے انجام دئے وہ کسی مجدد کے کام سے کم نہیں ۔ جس کے اثرات آج بھی اس خطہ میں محسوس کئے جاتے ہیں۔
آپ نے ۱۳۱۷ھ مطابق ۱۸۹۹ء میں انجمن نصرۃ الاسلام کی بنیا دڈال کر کشمیر میں دور جدید کی تاریخ کے سنہرے باب کا آغاز کیا جب شخصی راج نے کشمیر کو ظلمت کدہ بنا کر رکھا تھا۔ غلامی ، مجبوری ، محرومی ، مفلسی اور بے علمی اہل کشمیر کا مقدر بنکر رہ گئی تھی اور انگریزی پڑھنا گویا عیسائی اور غیر مسلمان بن جانا تھا اس غلط نظریے کی میرواعظ کشمیر نے عملًا تردید فرمائی اور مسلمان بچوں کو ابتدائی جدید علوم سے آراستہ کرایا۔
صورتحال یہ تھی اس دور میں اگر کہیں باہرسے کسی مسلمان کے پاس کوئی خط آتا تو اسے پڑھوانے کیلئے میلوں کسی غیر مسلم پنڈت کے پاس جانا پڑتا اور بسا اوقات گھنٹوں اور دنوں ایک معمولی خط پڑھوانے کیلئے انتظار کرنا پڑتا۔
علامہ رسول شاہ نے کمر ہمت باندھ کر دینی اور دنیوی تعلیم عام کر ڈالنے کی وہ عظیم تحریک چلائی جس کے شیریں ثمرات اور روشن نتائج سے قوم کی چار نسلیں برابر فائدہ اٹھا رہی ہیں اور آئندہ بھی اٹھاتی رہے گی۔
مورخین ، مبصرین اور تجزیہ نگار خاص طور پر مستشرقین آج اس حقیقت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہیں کہ ریاست خاص طور پر وادی کشمیر میں سیاسی بیداری کی تحریک کی داغ بیل دراصل تعلیمی انجمن نصرۃ الاسلام ہی کی دین ہے جس نے علم کی جوت روشن کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں میں سیاسی شعور اور اپنے حقوق کے حصول کا جذبہ بیدار کیا۔ اکثر سفید پوش ، حاجتمندوں، صاحب دختر اور مفلوک الحال لوگوں کی آپ نے امداد فرمائی۔ علوم دینی و دنیاوی کادرس مفت جاری رکھا۔ ایام و با، ہیضہ اور طاعون وغیرہ میں کسی بھی امداد سے دریغ نہ کیا۔
آپ کی ہمت اس قدر بلند تھی کہ کبھی اپنی ذاتی غرض کیلئے ساری عمر میں کسی سے کوئی التجا نہ کی۔ حکام وقت ان کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے اور آپ کی ملاقات کو غنیمت سمجھتے تھے ۔
مورخ کشمیر جناب محمد دین فوق مرحوم نے لکھا ہے کہ ’’ایک دفعہ طاعون کے سختی سے نمودار ہونے پر محکمہ میڈیکل سے طاعونی ٹیکہ کی تجویز ہوئی لیکن رعایا نے اسکو منظور نہ کیا۔ ان دنوں کرنل نیگ ہبنڈ ریزیڈنٹ کشمیر تھے ۔ انہوں نے مولانا سے ملاقات کیلئے درخواست ارسال کیا اور کہا کہ رعایا کا ٹیکہ لگانا صرف آپ کی تحریک پر منحصر ہے ۔ آپ اس میں کوشش کریں۔ آپ نے کہا کہ رعایا اس علاج کو خطرناک سمجھتی ہے۔ آپ اگر ایک ہفتے کی مہلت دیں تو دفع طاعون کے لئے دعا سے کام لیا جائیگا۔ صاحب بہادر نے کسی قدر تبسم اور سوچنے کے بعد کہا کہ خیر یہ بھی سہی۔ میرواعظ نے تمام شہر کی مسجدوں اور محلوں میں خشوع و خضوع سے اسم اعظم کے ورد کرنے کی تاکید فرمائی اور لوگوں کو تلقین کی کہ دین اسلام ایک فطری مذہب ہے جس میں دین و دنیا کا توازن پیش کیا گیا ہے اور ہر مرحلہ پر دعا کے ساتھ دوا کے استعمال کی بھی تلقین کی گئی ہے ۔ چنانچہ دعا کے ساتھ ساتھ لوگوں نے ٹیکہ لگوانے کا بھی اہتمام کیا ۔ اس سے ریذیڈنٹ نہ صرف مسرور ہوئے بلکہ ان پر آپکا اثر اور امام قوم ہونا ثابت ہوگیا۔‘‘
میرواعظ رسول شاہ نے اپنے پیشرومیرواعظین کا مشن آگے بڑھانے ، دعوت اسلام اور حفاظت اسلام خاص طور پر شرکیات و بدعات کا استیصال کرنے میں مجاہد انہ رول ادا کیا۔ آپ نے جامع مسجد میں مسلمانوں کے سامنے نو سال تک چہل حدیث ملا علی قاری اور آٹھ سال تک سورۂ ملک کی تفسیر بیان فرمائی۔ آپ نے متعدد رسالے بھی لوگوں کے عقائد کی اصلاح اور بدعات اور رسومات بد کے انسداد میں تحریر کئے۔ آپ کی ولادت ۳۰ ماہ ذی الحجہ ۱۲۷۱ھ جمعتہ المبارک کو ہوئی اور رجب المرجب ۱۳۲۷ھ بروز جمعہ آپ کی وفات ہوئی انا للہ وانا الیہ راجعون۔ بے پناہ لوگوں نے نماز جنازہ میں شمولیت کی ۔ آپ مقبرۂ میرواعظین ملہ کھاہ میں سپرد خاک کئے گئے۔

0 comments:

  © Thanks for visiting Only Kashmir

Back to TOP